اسلام آباد: آئندہ ماہ چار ستمبرکو ہونے والے صدارتی انتخابات میں اپوزیشن اتحاد متفقہ امیدوار لانے میں تاحال کامیاب نہ ہوسکی ہے اورگمان یہی ہے کہ جس طرح وزارت عظمیٰ کے انتخاب کے موقع پر اپوزیشن اتحاد دو حصوں میں منقسم ہوگیا تھا اسی طرح صدارتی انتخاب میں بھی یکجا نہیں ہو گا بلکہ اپوزیشن کی جانب سے ایک کے بجائے دوامیدوار میدان میں ہوں گے جس کا یقیناً تحریک انصاف کے امیدوارکو ہی فائدہ ہوگا۔
اپوزیشن اتحاد میں دراڑیں پڑنے اور متفقہ امیدوار لانے میں ناکامی کی صورت میں پاکستان تحریک انصاف کے نامزد امیدوار عارف علوی باآسانی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات طے ہے کہ صدارتی انتخاب جیتنے کیلئے اپوزیشن اتحاد کے مقابلے میں تحریک انصاف اور اس کی حلیف جماعتوں کے پاس عددی اکثریت موجود ہے لیکن اس کے باوجود اگر اپوزیشن اتحاد متفقہ امیدوار لانے اورآزاد اراکین کو بھی ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر سخت مقابلے کی توقع تھی لیکن اب ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
اگرچہ اب بھی اپوزیشن اتحاد کے اکابرین اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح اپوزیشن کی جانب سے بھی ایک ہی متفقہ امیدوار میدان میں رہے لیکن پیپلز پارٹی کے قائدین اپنے موقف اور امیدوار سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار دکھائی نہیں دے رہے ۔ اپوزیشن اتحاد اگر الگ امیدواروں کے ساتھ صدارتی انتخاب لڑتا ہے تو یقیناً اپوزیشن کا ووٹ دو حصوں میں بٹ جائے گا جس میں مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کے نامزد امیدوار مولانا فضل الرحمن زیادہ سے زیادہ 205 ووٹ حاصل کر سکتے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار اعتزاز احسن زیادہ سے زیادہ 116 ووٹ حاصل کر سکتے ہیں اس کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کے اتحادی جماعتوں کے نامزد امیدوار عارف علوی کو قومی اسمبلی، سینٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں سے340 کے قریب ووٹ ملنے کا امکان ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے نامزد امیدوار عارف علوی کو قومی اسمبلی سے176، سینٹ سے23، پنجاب اسمبلی سے 34 ووٹ، سندھ اسمبلی سے27 ووٹ، خیبر پختونخوا اسمبلی سے45 ووٹ، بلوچستان اسمبلی سے35 ووٹ ملنے کا امکان ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اپوزیشن کے نامزد امیدوار مولانا فضل الرحمن کو قومی اسمبلی سے96 ووٹ، سینٹ سے49 ووٹ، بلوچستان اسمبلی سے 16 ووٹ، خیبر پختونخوا اسمبلی سے15 ووٹ ملنے کا امکان ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے امیدوار اعتزاز احسن کو قومی اسمبلی میں54 ووٹ، سینٹ میں20 ووٹ، سندھ اسمبلی میں38 ووٹ، خیبر پختونخوا اسمبلی میں 2 ووٹ اور پنجاب اسمبلی سے1 ووٹ مل سکتے ہیں۔
صدارتی انتخابات میں عارف علوی کی ممکنہ کامیابی تحریک انصاف کی بہت بڑی کامیابی ہوگی ۔ تحریک انصاف نے جس طرح حالیہ عام انتخابات میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کو بری طرح شکست دیتے ہوئے طویل عرصے بعد ملک میں دوجماعتی نظام کے تسلسل کو بریک لگا دیا ہے اسی طرح صدارتی الیکشن میں بھی کامیابی حاصل کرکے اپوزیشن کو پریشان کر دیں گے۔ واضح رہے کہ 1988 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے 2013 تک (سوائے مشرف دور) وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) باری باری حکومت بناتے رہے ہیں۔ تاہم اب 2018 ء کے عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے ان دونوں جماعتوں کو وفاق میں حکومت بنانے سے محروم کیا ہے ۔
تحریک انصاف نے اس بار ان دو جماعتوں کو نہ صرف وفاق میں حکومت بنانے سے محروم کیا بلکہ حیران کن طور پر پاکستان مسلم لیگ(ن) کو وفاق کے بعد پنجاب میں بھی حکومت بنانے سے محروم کرتے ہوئے پہلی بار ملک کی سب سے بڑی جماعت کو اقتدار سے باہر کردیا ۔ سابق صدر پرویز مشرف دورکے بعد یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) وفاق سمیت ملک کے کسی بھی صوبے میں حکومت بنانے سے محروم رہا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 2018 کے انتخابات میں اگرچہ تحریک انصاف کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) نے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں مگر پارٹی قائدین کی جانب سے کامیاب سیاسی حکمت عملی نہ اپنانے کے باعث ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت بنانے سے محروم رہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی 127 جنرل نشستیں حاصل کی تھیں اور اس کے مقابلے میں تحریک انصاف کے پاس کل جنرل نشستیں 123 تھیں جبکہ 29 نشستوں پر آزاد اراکین منتخب ہوئے تھے، اگر نواز لیگ کی قیادت سیاسی بصیرت اور موقع کی مناسبت کو سمجھتے ہوئے بروقت آزاد اراکین کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے کوششیں کرتی تو تخت لاہور پر تحریک انصاف قبضہ نہ کرسکتی تھی لیکن وہ ایسا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ اس وقت صدارتی انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) کو پھر سے اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں میں سب سے زیادہ ووٹ رکھنے کے باوجود صدر کیلئے مسلم لیگ(ن) کی جانب سے امیدوار نامزد نہ ہونا، متفقہ امیدوار لانے کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی اور فضل الرحمٰن کے مرہون منت ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ میاں نواز شریف کی عدم موجودگی میں دیگر پارٹی قائدین سیاست کے کھیل میں سمجھ داری دکھانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں ۔ اگر یہی صورتحال جاری رہا تو یہ اس جماعت کیلئے بہتر نہیں ہوگا۔
دوسری طرف نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی سفارتی سطح پر بھی کئی تبدیلیاں سامنے آئی ہیں۔ عمراں خان کے عنان حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد پاکستان اور انڈیا کے مابین طویل عرصے سے تعطل کا شکار مذاکراتی عمل دوبارہ بحال ہو چکا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے مابین آبی تنازعات پر غور کیلئے دونوںملکوں کے سندھ طاس کمیشن کا دو رزوزہ مذاکراتی عمل آج سے لاہور میں شروع ہوگا۔
آبی تنازعات پر مذاکرات کیلئے انڈیا کی جانب سے بھارتی کمشنر برائے سندھ طاس کمیشن پردیپ سکسینہ کی سربراہی میں نو رکنی وفد پاکستان آئے گا جبکہ پاکستانی ٹیم کی قیادت قائم مقام کمشنر سندھ طاس مہر علی شاہ کریں گے۔ 29 اور 30 اگست کو ہونے والے مذاکرات کے ایجنڈے میں پاکستانی دریاؤں پر بھارت کے پہلے اسٹوریج ڈیم اور سب سے بڑے بجلی گھر پاکل دول کا متنازعہ ڈیزائن شامل ہے۔ دوسری طرف ایرانی وزیر خارجہ سمیت کئی ممالک کے اعلیٰ سطح کے حکومتی نمائندے پاکستان دورے پر آرہے ہیں۔ اس سے لگتا یہ ہے کہ پاکستان میں سفارتی سرگرمیاں تیز ہوں گی۔
The post اپوزیشن اختلافات، صدارتی الیکشن میں تحریک انصاف کی فتح یقینی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LA7K7N
via IFTTT
0 comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.