Monday, 15 October 2018

رفاقت حیات کا ناول ’’مِیر واہ کی راتیں‘‘

میں رفاقت حیات کو ان کے چند مضامین اور لالٹین ڈاٹ کام پر چھپنے والی چند کہانیوں کی وساطت سے ہی جانتا تھا کہ وہ لکھنے والے ہیں۔ پھر پتا چلا کہ ان کا ایک ناول بھی چھپ چکا ہے اور کہانیوں کا ایک مجموعہ بھی آ چکا ہے۔ مگر چونکہ میں نے ناول پڑھا اور نہ کہانیوں کا مجموعہ میرے ہاتھ آیا، لہٰذا میں انہیں ان کی آن لائن چھپنے والی کہانیوں اور مضامین کے حوالے سے ہی پہچانتا تھا۔

کراچی میں ان سے ملاقات ہوئی اور پھر انہوں نے اپنا ناول مجھے بذریعہ ڈاک لاہور بھجوایا۔ ناول کھولا، پڑھنا شروع کیا تو پھر پیچھے مڑ کے نہیں دیکھ سکا۔ ناول میں اتنی طاقت موجود ہے کہ یہ پڑھنے والے کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے اور ہر ختم ہونے والا پیراگراف نئے پیراگراف کے بارے میں بے چینی پیدا کر جاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر آپ اگلا پیراگراف پڑھے بغیر چین سے نہیں بیٹھ سکتے۔ گرفت ایسی مضبوط ہے کہ ناول آپ کو آنکھ نہیں جھپکنے دیتا۔ سسپنس ہالی ووڈ کی فلموں جیسا جو لمحہ بہ لمحہ اشتیاق کے کٹورے کو بھرتا چلا جاتا ہے۔ مجھے کئی بار خواہش ہوئی کہ جلدی سے پتا چل جائے کہ آگے کیا ہونا ہے، کیونکہ صبر نہیں ہو رہا تھا۔

ناول ’میر واہ کی راتیں‘ انسانی جسم میں جنسی خواہش کے بیج پھوٹنے سے لے کر اس کی تکمیل تک پہنچنے کی سعی کا ایک متاثرکن نفسیاتی بیان ہے۔

ناول کے صفحوں میں کوئی منظر ادھورا نہیں پیش کیا گیا بلکہ میں یہ کہوں گا کہ بھرپور منظرکشی نے تصاویر کو خوش رنگ جامے پہنا دیئے ہیں۔ کردار جس لمحے میں ایک دوسرے سے مخاطب ہیں، اس لمحے کے ماحول کی شکل و صورت کیسی ہے، آسمان کا رنگ کیسا ہے، ہوا چل رہی ہے یا بند ہے، اردگرد آوازیں ہیں یا خاموشی، موسم کس طرح کا ہے، دن یا رات کا کون سا لمحہ ہے، بیک گراؤنڈ میں جلال چانڈیو کی آواز میں جو گانا چل رہا ہے وہ کیسا سماں پیدا کر رہا ہے، منظرنگاری پر خاص توجہ دی گئی ہے جو ہر جگہ نظر آتی ہے۔

پھر ناول کے ایک منظر میں جب دو مرکزی کردار جنسی اختلاط کے نشے میں بے سدھ ہوئے جا رہے ہیں تو اچانک ایک بلی اس منظر میں آ ٹپکتی ہے اور جنسی فعل ناآسودگی پر منتج ہوتا ہے۔ میرے ذاتی خیال میں بلی کو یہاں آنا ہی چاہیے تھا، ورنہ یہ ناول کسی اور طرح ختم کرنا پڑتا۔ اور ممکن ہے کوئی دوسرا اختتام پورے ناول کا مقدمہ ہی کمزور کر دیتا۔

بلی نے ناآسودگی، عدم طمانیت، ادھورے پن اور قلق جیسے جذبات مرکزی کردار کے دل میں پیدا کیے جن کی بنیاد پر وہ اپنی مردانگی کے بارے میں متشکّک ہوگیا۔ میری نظر میں اس پچھتاوے میں اعلیٰ ادب کی جھلک ملتی ہے۔ اس لمحے سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کے منظرنامے بھی میرے ذہن سے ایک خیال کی رَو بن کر گزر گئے۔

جنسی خواہشوں کے احساس کو بغیر لگی لپٹی کے، بغیر کسی مبالغے اور رنگ آمیزی کے عین اسی صورت میں پیش کیا گیا ہے جو اس احساس کی فطری صورت ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے مجھے منٹو یاد آ گیا تھا۔

پھر ناول میں بیان کردہ کیفیات ہر انسان سے متعلق ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ جوانی کے پہلے زینے پر جب قدم رکھا تھا تو اس دوران اپنے اندر اٹھنے والی نئی ترنگ کو جس طرح میں نے محسوس کیا تھا، وہی کیفیت یہاں بھی موجود ہے۔ کہانی آپ کو اپنے ہی جنسی اور نفسیاتی روّیوں کے متعلق کلام کرتی معلوم ہوتی ہے۔

یہ اس باب کا قصہ ہے جس سے متعلق بات کرنا غیر مہذب فعل تصور کیا جاتا ہے۔ مگر ادیب کو کسی مہذب اور غیر مہذب ناپ تول کی بحث میں نہیں پڑھنا چاہیے، اسے وہ سب کچھ لکھنا چاہئیے جو وہ محسوس کرتا ہے یا جو کچھ اس کے مشاہدے میں آتا ہے۔

ناول میں اندرون سندھ کا مزاج، ثقافت، رہن سہن، طور اطوار اور رنگ ڈھنگ بڑی خوبصورتی سے موجود ہیں۔ دیہاتی سماج اور ذہن کی توہم پرستی کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔ مگر ایک بات مجھے کھٹکی بھی کہ توہم پرستی کو کسی نہ کسی طرح ناول نے جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ نذیر کو لگ رہا تھا کہ آج کی رات کچھ غلط ہونے والا ہے کیونکہ اس سے قبل دو مختلف طرح کے بُرے شگون ظاہر ہو چکے تھے۔ آگے چل کر اس رات میں واقعی کچھ غلط ہوگیا اور یہی محسوس ہوا کہ بُرے شگونوں کا یہ منطقی نتیجہ ہے۔ یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ناول نگار نے صورت حال ویسی ہی دکھانا چاہی ہو جیسی کہ وہ حقیقت میں ہے، اور انہوں نے خود کو اصلاح کار بنانا بالکل غیر ضروری سمجھا ہو۔ بہرحال میری سمجھ کے مطابق اس صورت حال میں واہموں کو ایک واقعے کی پیش گوئی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

پاکستان میں اس ناول کو سانجھ پبلی کیشنز نے چھاپا تھا اور اس کا دوسرا ایڈیشن بھی آیا ہی چاہتا ہے۔ میرے پاس ناول کی جو کاپی پہنچی ہے اسے بھارت سے عرشیہ پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔ دہلی سے چھپنے والے ناول کی کتابت 158 صفحات پر مشتمل ہے اور اس مختصر سے ناول میں حیرت انگیزیوں کا ایک سیلابِ رواں پایا جاتا ہے۔

ناول کی کہانی، کہانی کا موضوع، نثر لکھنے کا انداز اور کہانی کہنے کا کسا کسایا انداز دیکھ کے میں یہ ضرور کہوں گا کہ رفاقت حیات صاحب کو مزید لکھنا چاہیے۔ مجھے ان کے اگلے ناول اور کہانیوں کے مجموعے کا انتظار رہے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post رفاقت حیات کا ناول ’’مِیر واہ کی راتیں‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2EiZPgJ
via IFTTT

Related Posts:

  • بھارت میں سوشل میڈیا پر بچوں کے اغوا کی افواہوں پر 14 افراد قتلنئی دہلی: بھارت میں سوشل میڈیا پر بچوں کے اغوا کے افواہ پھیلنے کے نتیجے میں اب تک 14 افراد قتل ہوچکے ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق کئی ریاستوں میں سوشل میڈیا بالخصوص واٹس ایپ پر ایسی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں کہ بچوں کو اغوا ک… Read More
  • بنت حوا ہے، کون پوچھے گا… مار دے!سوشل میڈیا پر دو ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں جن میں ایک ویڈیو میں نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کا سیکیورٹی گارڈ اپنی کمپنی کی بس ہوسٹس کو دورانِ سفر ہراساں کررہا ہے اور مہوش نامی بس ہوسٹس اسے واشگاف الفاظ میں للکار رہی ہے جبکہ دوسری ویڈیو … Read More
  • دلّی والےدلّی کے ہر گھر میں ڈیوڑھی کے ساتھ دیوان خانہ یا بیٹھک ہوتی تھی شام پڑے احباب یہاں جمع ہوتے اور دیر تک باتیں کیا کرتے تھے۔ باہر والوں کو جب دلی والوں پر تنقید کرنا مقصود ہوتی ہے تو ناک چڑھاکر کہتے ہیں میاں انھیں مرچیں کھانے او… Read More
  • انتخابی امیدواروں کی حتمی فہرستیں جاری، انتخابی نشان کی بھی الاٹمنٹاسلام آباد: ملک بھر میں عام انتخابات 2018 کے لیے امیدواروں کی حتمی فہرستیں آج ریٹرننگ افسران (آر اوز) اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران (ڈی آر اوز) کے دفاتر میں آویزاں کردی گئی ہیں جب کہ امیدواروں کو انتخابی نشان جاری کرنے کا ع… Read More
  • لسبیلہ سے آگے۔۔۔بلوچستان وہ صوبہ ہے جو اپنی پسماندگی اور عوام کے احساسِ محرومی کے حوالے سے ملک کے اعلیٰ ایوانوں اور قومی سیاست میں زیرِ بحث رہتا ہے، مگر اس سے ہٹ کر دیکھا جائے تو یہی صوبہ اپنے دل فریب اور پُرکشش قدرتی مناظر اور تاریخی مقامات… Read More

0 comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.