بوڑھا آدمی جہاں بھی چلا جائے، وسوسے اس کی جان نہیں چھوڑتے۔ خوف اس کا ایک مستقل ساتھی ہوتا ہے۔ شاید اسی خوف کی وجہ سے یہ مضبوط فیصلوں کے سہارے نہیں جیتے بلکہ شگونوں کی انگلی پکڑ کر فیصلے کرتے ہیں۔ ہمیشہ حزن و ملال اور پچھتاوے کا شکار رہتے ہیں اور خیالوں کے الجھے دھاگوں کے لچھوں میں پھنسے رہتے ہیں۔
لیکن کلف، ایمیلیا اور جان کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ یہ تینوں زندگی کی سو سے زائد بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ لیکن ان کی ہمتیں اب بھی جوان ہیں اور ایک بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔ جینے کی تمنا اور سیکھنے کی آرزو اب بھی باقی ہے۔ پرانی یادوں کو سمیٹ کر کبھی مسکراہٹوں کی کرنیں بکھیرتے ہیں تو کبھی آنسوؤں کی جھڑی لگاتے ہیں۔ لیکن پچھتانے کےلیے ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔ یہ سب پوری طرح مطمئن، مضبوط اور مستحکم ہیں۔
ان کا طرز عمل نہایت شائستہ اور مہذب ہے۔ ان کی سوچتی، پوچھتی نگاہیں اب بھی زندگی کی راہوں پر سچائی اور خوبصورتی تلاش کرتی ہیں۔ ان کی زندگی کا دریا پوری آب و تاب سے گول اور سپید سنگریزوں پر بڑبڑاتا ہوا دوڑ رہا ہے۔ یہ اب بھی پہاڑوں کے اس طرف کھلے میدانوں میں ان گنت راہوں کو یاد کرکے خوشیاں بٹورتے ہیں جن پر چل کر اس لمبی تھکا دینے والی زندگی کا سفر وہ طے کرتے رہے۔
وہ چلتے تو پگڈنڈی کے کنکر ادھر ادھر گھاٹیوں میں لڑھک جاتے کہ ان کے زریں جوتوں پر کھرونچیں نہ پڑیں۔ غروب آفتاب کے بعد جب پربتوں میں نصف چاند کی زرد روشنی سنسنانے لگتی اور دور گھاٹی میں جھرنے کے کنارے مینڈک ٹرٹراتے تو چلتے قافلے رک جاتے اور ٹھکانا کرتے۔ اونٹوں کے گلے کی گھنٹیوں کی ٹن ٹن تھم جاتی۔ انہیں یاد ہے کہ وہ بھی کبھی ان قافلوں کا حصہ رہے اور ستاروں کے جھرمٹ ایک تاباں بادل کی صورت اختیار کرکے ان کے سروں پر سایہ کئے تیرتے رہتے۔
چاندنی رات اور مکمل سناٹا، قدرت کی ایک نہایت خوبصورت تصویر ہے۔ سناٹے کے بغیر چاندنی اس تصویر کی مانند ہے جس کے رنگ دھوئیں اور گرد نے چوس لیے ہوں۔ بے جان چاندنی سے لپٹی ہوئی راتیں کسی کو نہیں بھاتیں۔ زندگی کا بھوت اگر چاندنی پر بھی اپنے بے ہنگم رقص اور چیختے چلاتے گھنگروؤں کے چرکے لگائے تو اس چاندنی سے وہ اندھیرا بھلا جس میں دل کی دھڑکنیں ہتھوڑے کی چوٹ بن کر بجتی ہیں۔
ڈوبتے سورج کے ساتھ صنوبر کے لمبے سائے پہاڑوں پر اور پہاڑوں کے لمبے سائے جھیل پر بچھ جاتے ہیں۔ پھر چاند کسی دراز قد صنوبر کی ڈالی کی اوٹ سے نکل کر ہر طرف دودھیا چاندنی بکھیر دیتا ہے۔ گرجتی خاموشیاں، شرماتی سرگوشیاں، اور پھر صبح کا ستارہ پر پھڑپھڑانے لگتا ہے۔ بڑھیا جو اپنے سوکھے ہوئے بازو کا تکیہ بنائے کھاٹ پر آنکھیں موندے لیٹی تھی، اٹھ بیٹھتی ہے۔ دھندلے افق پر پو پھٹنے لگتی ہے تو چاندنی اور سناٹا، پہلے صبح صادق کے مٹیالے اجالے اور پھر تیز روشنی اور شوروغل کےلیے اپنی جگہ خالی کردیتے ہیں۔ ساری فضا سایوں سے بھر جاتی ہے۔ ایک مسمسی صورت والی بلی جو چولہے کے کنارے اپنی دُم کا آخری سرا اپنے اگلے پنجوں میں دبائے آنکھیں بند کئے بیٹھی تھی، اچانک مالکن کی ٹانگوں سے نکل کر تیر کی طرح چڑیا پر حملہ آور ہوتی ہے۔ اور بہت دور ایک موڑ پر، سفید چٹان کے پاس، باز اپنے شکار پر جھپٹتا ہے۔ سر سبز وادیوں میں دریا کے کنارے شیر دھاڑتا ہے۔
نصف شب کے سیمیں سناٹوں میں نہ تو کوئل کی کراہیں اچھی لگتی ہیں اور نہ پپیہے کی ہچکیاں۔ اس وقت اگر کوئی چیز دل کو بھاتی ہے تو وہ ہے پیلا چاند، جو دور مغربی پربت کی چوٹی پر، ایک اونچے صنوبر کی آخری پھننگ پر ٹھوڑی رکھے سونے کی کوشش میں مصروف ہوتا ہے۔ یا پھر دل دہلا دینے والی دھپ کی وہ آواز کہ جب دو چار پتھر اچانک لڑھک کر ایک خاموش جھرنے میں جا گریں اور جھرنے کی سطح پر چاند کا سویا ہوا سایہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دیر تک تڑپتا رہے۔
باقی ہر قسم کی آوازیں چاندنی کی لطافت پر چھا جاتی ہیں۔ چاندنی پر چھا جانے والی آفتوں سے ہر وہ انسان نفرت کرتا ہے جو چاند کے دودھیالے اجالوں میں نہایا ہو اور نقرئی کرنوں کی بے آواز پھواروں میں بھیگا ہو۔
کلفورڈ کروزیئر
میرا نام کلفورڈ کروزیئر ہے۔ لیکن میں آپ کو پوری زندہ دلی سے اس بات کی اجازت دیتا ہوں کہ آپ مجھے بلاتکلف ’’کلف‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ میں 5 ستمبر 1915 کو برطانیہ میں چیشائر کے علاقے برکن ہیڈ میں پیدا ہوا۔ یہ پہلی جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ میرا خیال ہے میں وہ سب کچھ کرچکا ہوں جو میں کر سکتا تھا یا مجھے کرنا چاہیے تھا۔ میری عمر اس وقت ایک سو دو سال ہے لیکن میں اس وقت تک زندہ رہنا چاہتا ہوں جب تک میں چل پھر سکتا ہوں اور کارآمد ہوں۔ اور یہی سب سے بڑی چیز ہے۔
میں نے کالج اور جنگ کے زمانے کے علاوہ اپنی پوری زندگی برکن ہیڈ کے اپنے آبائی گھر میں گزاری ہے، جو ایک خوبصورت اور کھلا ہوادار گھر ہے۔ جو چاروں طرف سے بڑے سرسبز درختوں اور پودوں میں گھرا ہوا ہے۔ اس کے آس پاس کھلے سرسبز میدان ہیں۔
یہ درخت اور سبزہ سردیوں میں برف کی سفید چادر اوڑھ کر سوجاتے ہیں اور پھر اس وقت بیدار ہوتے ہیں جب ان کی اوڑھنی ٹھنڈا پانی بن کر ندی نالوں میں یوں نغمے بکھیرنے لگتی ہے جیسے کسی ماہر مغنی کے بربط کی دُھنیں اس کے دل کی خلوت کے راز اگلتی ہیں۔ جب اس بہتے برفیلے پانی کو سورج کی کرنیں مس کرتی ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے کوئی خوبرو نچلا ہونٹ دبا کر آنکھوں سے تبسم برسا رہا ہو۔ یا جیسے برسات کی اندھیری راتوں میں جگنو چمکتے ہیں۔
کناروں سے سر پھوڑ کر پانی کے ننھے قطرے یوں بکھرتے ہیں جیسے کسی دوشیزہ کے آنسو پلکوں سے پھسل کر سینے پر آگریں یا کان کی بالیوں کے سفید موتی اچانک لڑھک کر ادھر ادھر بکھر جائیں۔ یا کوئی تھکا ماندہ مسافر ذرا سا سستانے سے پہلے پیشانی سے اپنے ماتھے کے پسینے کے موتی انگشت شہادت کے اندرونی گداز حصے سے زمین پر لڑھکاتا ہے۔ ندی کا شفاف پانی یوں آگے بڑھ رہا ہے جیسے کوئی نازک بدن سبک خرامی کرتے ہلکا سا لوچ کھاتا ہے۔
مجھے ریٹائر ہوئے اڑتیس سال ہوچکے ہیں۔ میرا یہ خیال مجھے بڑی مسرت بخشتا ہے کہ میں ابھی تک پینشن کی صورت میں سرکاری خزانہ لوٹ رہا ہوں۔ یہ زندگی ہے اور یہ ایسے ہی چلتی ہے۔ یہ سب اعداد و شمار کا ہیر پھیر ہے۔ سو سال بھی ان ہی اعداد و شمار کا حصہ ہیں۔ آپ ایک دن کےلیے زندہ رہتے ہیں۔ کبھی کبھار دودھ کی ایک ہلکی سی مقدار مشکل وقت میں تھوڑی سی داد رسی کرتی ہے۔ اگرچہ یہ قومی طبی نگہداشت کے نظام کا حصہ نہیں۔
میں اپنے لیے اپنے ہاتھوں سے روٹی بناتا ہوں۔ غالباً آج بھی میں کچھ بناؤں گا۔ کل میری آن لائن خریدی گئی گروسری پہنچ رہی ہے۔ ملائی اترا دودھ، باورچی خانے میں استعمال ہونے والے تولیے، چھ اونس آٹا، دو اونس چینی، چھ اونس مکھن، سیب، اور انگور، بہت سے انگور اور آلو قیمے کی قاب۔
کھانا بناتے ہوئے میری ناکامیوں کا سلسلہ کوئی زیادہ طویل نہیں۔ مثلاً اگر میں نے کیک بنانے کی کوشش کی اور کیک نہ بن سکا تو حلوہ بن گیا۔
شادی کے بعد یقیناً ہمیں کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ہم نے ان کا سامنا صبروتحمل سے کیا، انہیں زندگی کا ایک حصہ سمجھتے ہوئے برداشت کیا اور ان میں سے کامیابی سے گزر گئے۔ لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ لوگ بہت جلد ہمت ہار دیتے ہیں۔
میں کالج میں بیمار ہوگیا تو میرے والد مجھے لینے آئے۔ میں ان کے ساتھ واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔ میں کالج میں ہی اپنے دوستوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتا تھا۔ مجھے اس کا ہمیشہ رنج رہا کہ میرے والد نے میرے لیے ایک لمبا سفر کیا اور مجھے لینے آئے اور میں نے ان کی، مجھے اپنے ساتھ واپس لے جانے کی، پیشکش کو شرف قبولیت نہیں بخشا۔
آج بھی یہ سوچ کر کہ میں نے اپنے والد سے اچھا برتاؤ نہیں کیا، میرا دل دریا کی مچھلی کی طرح ایک بار اچھل کر کسی نامعلوم گہرائی میں ڈوب جاتا ہے۔ یہ انتہائی بری بات تھی جو مجھ سے سرزد ہوئی۔ کیونکہ میں اپنے والد کا بے حد مداح تھا اور میرے دل میں ان کےلیے بے حد احترام تھا۔ میں اس سلسلے میں اپنی صفائی پیش کرنے اور کچھ بھی کہنے سے قاصر ہوں۔ میں اپنا کوئی خیال آپ پر مسلط کرنا نہیں چاہتا۔ آپ کو وہ کرنا چاہیے جو اس وقت کی ضرورت ہے جس میں آپ زندہ ہیں۔ اس لیے کہ جو آج سے اسّی نوّے برس پہلے درست تھا، ہوسکتا ہے آج نہ ہو۔
والدین سے ہمیں بات چیت کرنی چاہیے اور ان کا مشورہ قبول کرنا چاہیے، یا کم از کم اس پر غور ضرور کرنا چاہیے۔ آپ کو ہمیشہ اس پر عمل نہیں کرنا ہوتا لیکن کبھی سوچے سمجھے بغیر اس کو رد بھی نہیں کرنا چاہیے۔ مشاہدے اور جانچ پڑتال میں صرف کیا گیا وقت کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ (جاری ہے)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post عمر 100 برس کی، لیکن ہمت جوان ہے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2HR64WK
via IFTTT
0 comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.