قرآن پاک میں خالق کائنات نے عدل کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قائم کرنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے : ’’ اور جب کوئی فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔‘‘
انبیاء و رسل کی بعثت کا سب سے بڑا مقصد، معاشرے میں لوگوں کی زندگی میں عدل کو قائم کرنا بھی ہے کیوں کہ عدل کے ذریعے ایک معاشرہ پوری طرح سے پُرامن اور ایک اچھا معاشرہ بن سکتا ہے۔ اسی لیے انبیاء کے مبعوث کرنے کی ایک اہم وجہ عدل کے قیام کو قرار دیا گیا ہے، جس کے بارے میں فرمان الہی کا مفہوم ہے : ’’ بے شک ہم نے اپنے رسولوںؑ کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔‘‘
گویا عدل و انصاف ہی انسانیت کی خوش حالی اور بقا کا سب سے بڑا ضامن ہے۔ نبی کریمؐ کی ذات گرامی کو دیکھ لیجیے آپ صرف انسان کامل نہیں ہیں، بل کہ پوری نوع انسان کے لیے نمونۂ عمل بھی ہیں۔ آپؐ کی محبت کا دم بھرنے والوں نے زندگی کے تمام شعبوں میں کردار و گفتار کے حوالے سے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اب بھی عوام عدالت کو بے حد پسند کرتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خواہش عدالت کا نفاذ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کی اس طرح تربیت کی جائے کہ وہ خود عدل و انصاف کے حامی بن جائیں اور یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب انسان اپنے اخلاق اور کردار میں عدل کو قائم کرے، جب تک انسان اپنے اخلاق اور کردار میں عدل کو قائم نہیں کرے گا اس وقت تک وہ معاشرے میں عدل کو قائم نہیں کرسکتا۔
رسول اکرمؐ کی ذات مجسم عدل تھی کیوں کہ آپؐ نے سخت ترین حالات میں بھی عدل کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ بے شک میں اخلاق کی خوبیوں کو مکمل کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس حدیث کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اخلاق کا ایک مصداق معاشرے میں عدالت کو قائم کرنا ہے۔ آپؐ کے بعد آپ کے خلفاءؓ نے بھی عدل و انصاف کو قائم کیے رکھا جس کی وجہ سے ان کے ادوار میں امن و امان قائم تھا اور ان کا عدل و انصاف آج دنیا میں رہنے والے انسانوں کے لیے ایک نمونہ ہے۔
انصاف جتنا سستا ہوگا اتنی ہی برائیاں اور ناانصافی دور تک نظر نہیں آئیں گی، جس معاشرہ میں انصاف منہگا ہوجائے تو اس معاشرے میں پھر جرائم سر اٹھاتے اور امن و امان برباد ہوجاتا ہے۔ لہذا انصاف ہر فرد کی ضرورت اور ہر در پہ ملنا چاہیے۔ ناانصافی انتشار و بے امنی کو لاتی ہے اور انصاف امن بھائی چارے و اخوت کو لاتا ہے۔
حضرت عمر ؓکے زمانے میں حضرت قیسؓ مصر کے گورنر تھے، ایک دن ایک بوڑھی عورت نے حاضر ہوکر شکایت کی کہ میرے گھر میں کیڑے مکوڑے بہت کم ہیں۔ حضرت قیس ؓنے فوراً حکم دیا کہ اس بڑھیا کا گھر کھانے پینے کی چیزوں سے بھر دیا جائے۔ دراصل یہ ایک سطر کا زبانی مقدمہ گورنر کی عدالت میں ایک غریب مجبور لاچار بوڑھی عورت نے فاقہ کشی کے خلاف دائر کیا تھا، جس کو حضرت قیسؓ کی ذہانت نے چند لمحوں میں فیصل کردیا۔ نہ کوئی تحریر تھی نہ کوئی وکیل تھا نہ گواہ اور اس بوڑھی خاتون نے ایک پیسا خرچ کیے بغیر مقدمہ جیت لیا تھا۔
اسلامی تعزیرات قرآنی احکامات ہیں اور رسول اکرمؐ کے ارشادات اور اعمال ان کی تفسیر ہیں۔ یہ ایک مکمل تعزیراتی ضابطۂ حیات ہے جس کا اعتراف دنیا کے دانش وروں نے بھی کیا ہے۔
ایک بار ایک شہر پر مسلمان فوج نے خلیفہ کے حکم کے بغیر قبضہ کرلیا تھا۔ وہاں کے لوگوں میں بے چینی پیدا ہوئی، ان میں حقارت و نفرت، کرب و اضطراب کے شعلے بھڑکنے کے لیے بے تاب تھے لیکن وہ بے بس و مجبور تھے۔ ان کی عسکری طاقت مفلوج ہوچکی تھی، شہر پر مسلمان فوج قابض تھی اور اس کے واپس جانے کے آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ایک شخص واحد کی درخواست پر مسلمان قاضی نے مسلم فوج کو شہر خالی کرنے کا فیصلہ سنا دیا تھا۔ شہر کے باشندوں پر جو اس جسمانی طور پر کم زور و نحیف قاضی کے ایسا فیصلہ کرنے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ وہ لوگ حکم نافذ ہوتے ہی اسلامی فوج کے سپاہیوں کو سامان باندھتے اپنی سواریوں پر لادتے حیرت سے کھڑے دیکھ رہے تھے کہ اچانک ان کے قلوب کے مطلع پر ایک ایسا سورج طلوع ہوا جس نے ان کے اذہان اور دلوں کے اندھیروں میں ایک ایسی روشنی بھردی جس کو ایمان کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔ وہ سب اکٹھے ہو کر سپہ سالار کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اب آپ کو شہر خالی کرنے کی ضرور ت نہیں ہے ہم لوگوں کو آپ کے حسن اخلاق عدل و انصاف اور قاضی کے حکم کی پابندی کے مقدس جذبوں نے بڑا متاثر کیا ہے اور ہم سب ایمان لاتے ہیں۔
خلفائے راشدینؓ کے سامنے کسی ملک کی تعزیرات نہیں تھی اور نہ کسی مقدمے میں کسی خاص دفعہ کا نفاذ ہوتا تھا جس کی روشنی میں مقدمے فیصل کیے جاتے۔ عدل و انصاف کے ایسے ہزاروں فیصلوں سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے۔ ان قاضیوں کے سامنے صرف اسلامی تعزیرات تھی اور ایمان کی روشنی اور فہم و فراست تھی، جس کی بنیاد پر انہوں نے ایسے فقیدالمثال فیصلے دیے ہیں جو تاریخ میں روشن الفاظ میں درج ہیں۔
ان کے دلوں میں خوف خدا تھا، وہ لوگ ناانصافی کے خیال سے ہی پتے کی طرح لرزنے اور کانپنے لگتے تھے کہ کسی کی حق تلفی نہ ہوجائے اور بارگاہِ خداوندی میں شرمندہ اور سزاوار نہ ہونا پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سماجی زندگی میں عدل و انصاف کے ایسے چراغ روشن کردیے ہیں جو تاقیامت روشن رہیں گے۔
اللہ تعالی ہمیں عدل و انصاف کی وہ بہاریں نصیب فرمائے جن سے معاشرے میں امن و امان قائم ہو اور ہر فرد سکھ کا سانس لے سکے۔ آمین
مولانا محمدطارق نعمان
The post عدل و انصاف appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2uteTQQ
via IFTTT
0 comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.