سب سے پہلے تو میں بتا دوں کہ میں ایک بڑے ادارے میں ادنی سی ملازم ہوں۔ لکھنے کا شوق پرانا ہے۔ بیٹھے بیٹھے بہت عجیب اور اچھوتے خیال ذہن میں امڈ آتے ہیں مگر جب قلم اٹھاتی ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مجھے جو کچھ کہنا ہے، وہ تو بہت سے دوسروں نےمجھ سے پہلے ہی کسی نہ کسی انداز میں کہہ دیا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ میری تحریر کو وہ پذیرائی نہ مل سکے جو کسی مشہور لکھاری کے حصے میں آتی ہے، تو پھر کیا لکھا جائے؟ کوئی ایسی تحریر جو اچھوتی ہو اور پڑھنے والے کو حیران تو کردے لیکن پریشان نہ کرے۔
ایک دن میں اپنے باس کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ یہ حضرت بھی کیا چیز ہیں! اپنی ہر بات کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں۔ کام سو فیصد ان کی مرضی کے مطابق بھی کردیا جائے تو اس میں سے بھی غلطیاں نکالنا اپنی شان سمجھتے ہیں۔ اگر یہ بھی کہیں کہ میں نے تو اس طرح سے کہا تھا، تم نے اس طرح کیوں کردیا؛ تو ایسی حالت میں جھلاہٹ تو بہت ہوتی ہے لیکن باس تو باس ہے، جس کے بارے میں کسی انگریز نے کہا تھا کہ باس ہمیشہ درست کہتا ہے۔
باس سے الجھنا اور بحث پر اتر آنا نوکری سے ہاتھ دھونا ہے۔ میری ایک سہیلی بہت پریشان رہتی تھی۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ وہ ہر وقت ساس کی تنقید کی زد میں رہتی تھی: یہ کیوں کیا اور وہ کیوں نہیں کیا، میں نے کہا کچھ تھا اور تم نے کر کچھ دیا۔ وہ مجھے ہر وقت اپنی کتھا سناتی اور میں اسے اپنے باس کی سخت گیر طبیعت اور ترچھی ٹیڑھی باتیں سنا کر اپنے ذہن کا بوجھ ہلکا کرتی۔ ایک رات سوتے ہوئے خیال آیا کہ باس اور ساس کے رویّے کیا ایک جیسے نہیں ہوتے؟ ہاں! ان دونوں شخصیات کا اگرچہ ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں بنتا لیکن ان کی عادات و اطوار اور انداز حکمرانی بڑی حد تک ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ تو چلو اسی موضوع پر قلم اتھاتے ہیں۔
کہتے ہيں کہ اچھا باس اور اچھی ساس کسی خوش قسمت ہی کو نصيب ہوتے ہیں۔ اگر باس ايک حد سے زيادہ ناراض ہوجائے تو نوکری خطرے ميں، اور اگر ساس اپنی غلطیوں کا ملبہ بہو کے سر ڈالنا شروع کردے تو گھر گرہستی خطرے میں۔ باس اپنی غلطیوں کا ذمہ دار بدقسمت ملازمین کو ٹھہراتا ہے اور ساس اپنی کوتاہیاں بہو کی جھولی میں ڈالتی ہے۔ اس معاملے ميں دونوں کے دلائل اس قدر ٹھوس ہوتے ہيں کہ انہيں رد کرنا کسی کے بس ميں نہيں ہوتا؛ اور دونوں کا ضمیر خدا جانے ایسا کرتے ہوئے کس کونے میں چھپ جاتا ہے۔
ہم مدتوں سے ایک باشعور، منظم، اصول پسند اور تعليم یافتہ معاشرے کا تصور ذہن میں لیے بیٹھے ہیں۔ ایسا معاشرہ کب وجود میں آئے گا؟ کچھ معلوم نہیں۔ اور اگر ایسا ہوجائے تو کیا ساس اور باس اپنے آپ کو اس ماحول کے مطابق ڈھال لیں گے؟ ایسا نظر تو نہیں آتا۔ وہ تو مرتے دم تک اپنے آپ کو عقلمند ہی سمجھتے ہیں اور معاشرے کو قصور وار۔ ایک سخت گیر باس کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ایک ایسی ہی سخت گیر بیوی کا شوہر تھا۔ دونوں بوڑھے ہوگئے تو باس کی باتوں پر اسٹاف نے کان دھرنے چھوڑ دیئے اور ساس کا رعب ماضی کا حصہ بن گیا۔ ایک دن دونوں اپنے ماضی کو یاد کرتے کرتے پریشان ہورہے تھے۔ ساس نے کہا: ’’عجب وقت آگیا ہے۔ ہماری ساری بہویں خودسر ہوگئی ہیں، کوئی بات ہی نہیں سنتیں۔‘‘ باس کہنے لگا، ’’میرےساتھ بھی کچھ ایسا ہی مسئلہ ہے۔ اسٹاف میری بات پر کان ہی نہیں دھرتا، بک بک کرتے کرتے تھک جاتا ہوں۔‘‘
یہ تو خیر مکافات عمل تھا، دونوں بوڑھے ہوکر بھی اصل صورت حال کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ زندگی کے سفر میں کام باہمی افہام و تفہیم سے ہی چلتے ہیں۔ گھر چلانا ہو یا دفتری ماحول کو خوشگوار رکھنا، دوسروں کی بات کو سننا اور سمجھنا ہی عزت افزائی کا باعث بن سکتا ہے۔ خیر، یہ تو ایک بات ہوئی۔ اب بھلا باس کے بوڑھا ہونے کا انتظار کون کرے اور ساس کے طعنے اور شکوے شکایات سننے کےلیے بچوں کے بڑا ہونے تک کون صبر کرے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post باس اور ساس appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zc77Ot
via IFTTT
0 comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.