Sunday, 29 April 2018

عوام جواب مانگتے ہیں

راؤانوار کا نام سُنتے ہی سماعت گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اُٹھتی ہے، کسی پولیس مقابلے میں چلنے والی گولیاں، جن کا نشانہ بننے والے تو ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئے لیکن ان میں سے اکثر کے لواحقین روتے، چیختے، بین کرتے رہے، مگر ان کی آوازیں صدا بہ صحرا ثابت ہوئیں، باقی رہی تو راؤانوار کی بندوق کی غراہٹ، اور اس غراہٹ نے نقیب اللہ کی آواز بھی اس کے سینے میں گھونٹ دی۔

دل آویز شخصیت کا مالک یہ نوجوان تو ہمیشہ کے لیے چُپ ہوگیا مگر اس کا خون بول اُٹھا۔ احتجاج کی لہر کراچی سے وزیرستان تک پھیل گئی۔ ردعمل اتنا شدید تھا کہ راؤانوار کو اپنی روسیاہی سمیت روپوش ہونا پڑا۔ آصف زرداری کا یہ ’’بہادربچہ‘‘ کس کی جائے امان میں چُھپا رہا؟

اس سوال کا جواب مل گیا تو یہ حقیقت کھل جائے گی کہ راؤانوار کس کا ہتھیار ہے، ابھی تک انصاف اس سوال کے پیچھے نہیں گیا۔ پھر ایک دن وہ بڑی شان سے عدالت میں پیش ہوگیا۔ امید تھی کہ اتنے شدید احتجاج اور عدلیہ کے ازخودنوٹس لینے کے بعد موت کا یہ ہرکارہ کم ازکم ملزم کی حیثیت سے انصاف کے کٹہرے میں ضرور لایا جائے گا، لیکن اب یہ اُمید مختلف اخبارات میں شایع ہونے والی اس خبر کے ہاتھوں قتل ہوگئی کہ نقیب اللہ قتل کیس کی تفتیشی ٹیم نے اس معاملے کے مرکزی ملزم راؤ انوار کو وعدہ معاف بننے کی پیش کش کی ہے۔

اگر یہ خبر غلط تھی تو تفتیشی ٹیم کو اس کی تردید کرنی چاہیے تھی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ پھر ایک اور خبر کی سیاہی نے تاریکی بڑھائی۔ اس خبر کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس کی تفتیشی ٹیم کی راؤانوار اور اس مقدمے میں ملوث دیگر مفرور ملزمان سے ’’ڈیل‘‘ ہوگئی ہے۔ سودا یہ طے پایا ہے کہ تفتیشی ٹیم عدالت سے راؤانوار کے مزید ریمانڈ کی استدعا نہیں کرے گی۔ ’’ڈیل‘‘ سیاہ معنوں سے بھرا لفظ صاف بتا رہا ہے کہ معاملات طے پاچکے ہیں، بس رسمی کارروائی ہونا ہے، پھر انصاف ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا کر پولیس مقابلے میں مار دیا جائے گا۔ ہم نے انگریزی اور لغات نکال کر دیکھیں، معلوم ہوا کہ ڈیل کا لفظ منفی معنوں میں یا منفی انداز میں سودا طے پانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

اب سب صاف ہے۔ پوری بے شرمی کے ساتھ راؤانوار کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے، شاید اس لیے کہ ہر زورآواز کا یہ آلۂ کار اپنے سینے میں چُھپے بھید نہ کھول دے۔ یہ خبریں سامنے آنے کے بعد انصاف کی امید باندھے عوام، خاص طور پر راؤانوار کے ہاتھوں بے بسی کی موت مارے جانے والے افراد کے لواحقین اور سرکاری وردی میں خون آشامی کے خوف ناک چلن پر دل گرفتہ دانش ور تشویش اور اندیشوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کمیشن کے نمائندے راؤانوار کے معاملے پر ریاستی اداروں کے رویوں پر شروع دن سے خدشات اور تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ وقت ان کے اندیشوں کو درست ثابت کر رہا ہے۔

اب یہ خدشہ ہر حساس دل میں پھنکار رہا ہے کہ کیا ایک ایسے شخص کو وعدہ معاف گواہ کی سند دے کر اور اس سے سودے بازی کرکے اُسے پاک صاف اور ہر قتل سے بری کردیا جائے گا جس پر لاتعداد افراد کو ہاتھ باندھ کر بے دردی سے ماردینے کا الزام ہے۔ اگر راؤانوار کے ’’انصاف‘‘ کا نشانہ بننے والے سب کے سب افراد مجرم اور دہشت گرد تسلیم کرلیے جائیں تب بھی کیا یہ ماورائے عدالت قتل کوئی جواز پاسکتے ہیں؟؟ اس سے قطع نظر کہ قانون کی کتابیں استغاثہ کی ضرورت کے تحت کسی ملزم کو وعدہ معاف گواہ بنانے کے لیے کیا کہتی ہیں۔

کیا شرائط عاید کرتی ہیں، کیا اس کا ذرا سا بھی اخلاقی جواز ہے کہ جس شخص کی وردی پر پڑے کتنے ہی انسانوں کے خون کے دھبے اپنی اپنی کہانی سُنا رہے ہوں، جس کے ہاتھوں پر لگا لُہو چھپائے نہ چھپایا جارہا ہو، جس کی دولت اور جائیدادیں چیخ چیخ کر بتارہی ہوں کہ ان کی بنیاد بدعنوانی اور انسانی لاشوں پر رکھی گئی ہے، اسے کسی قانونی رعایت کی جھری سے کھینچ کھانچ کر نکالا اور بچالیا جائے؟ کٹہرے سے نکل کر راؤانوار تو اُسی طرح اکڑتا ہوا چلا جائے گا جس طرح عدالت میں ’’حاضر‘‘ ہوا تھا، لیکن قانون اور انصاف کے سر ہمیشہ کے لیے جھک جائیں گے۔ ایسی صورت میں وہ پولیس جو ہر شریف شہری کے لیے پہلے ہی خوف کی علامت ہے، مزید بے لگام اور کہیں زیادہ خوں خوار ہوجائے گی۔ یوں راؤانوار کا معاملہ ایک شخص نہیں بلکہ پورے نظام انصاف سے وابستہ ہے اور اس پر سوال پر سوال لگا رہا ہے۔

ایسے میں جب پاکستان کے منصف اعلیٰ بجا طور پر مختلف سرکاری اداروں اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر کڑی تنقید کے ساتھ دوروں اور ازخود نوٹس کے ذریعے صورت حال میں بہتری لانے کے لیے کوشاں ہیں، اس پر داد اور توصیف پارہے ہیں، ان کی زیرسربراہی قائم نظام انصاف میں شگاف ڈال کر کسی سفاک قاتل کو بچالینا حکومتوں اور سیاست دانوں سے مایوس عوام کو نظام عدل سے بھی مایوس کردے گا۔ اُمید کا دیا ٹمٹمایا ضرور ہے، لیکن ابھی تک روشن ہے۔ مفرور اور روپوش ملزم راؤانوار کو جس طرح عدالت میں طلب کیا گیا۔

اس سے یہ تاثر ابھرا کہ اُس کے بارے میں نرم رویہ اختیار کیا جارہا ہے، پھر اس کی شاہانہ انداز اور ’’باعزت‘‘ طریقے سے آمد ’’کچھ نہیں ہوگا‘‘ کے مایوس کُن خیال کو تقویت دے گئی، یہ سوال ہاتھ باندھے سرجھکائے دُبکا رہا کہ آخر راؤانوار کس پناہ گاہ میں منہہ چھپائے رہا، جہاں تک کسی کو رسائی کی ہمت نہ ہوسکی۔ پھر مقدمے کی طوالت پر ہر ایک یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ شاید نقیب اللہ سمیت راؤانوار کا مبینہ طور پر نشانہ بننے والے سیکڑوں افراد کا خون وقت کی دھول میں چھپانے اور اُڑانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور اب یہ خبریں کہ ’’سات خون معاف‘‘ کرتے ہوئے راؤانوار کو وعدہ معاف گواہ بنایا جارہا ہے، اس سے ’’ڈیل‘‘ کرلی گئی ہے! ایک طرف راؤانوار کے ظلم کی کو بہ کو پھیلی گواہیاں ہیں، دوسری طرف عدل وانصاف کے بلندبانگ وعدے۔۔۔۔اب اگر راؤانوار انصاف کے کٹہرے میں لائے بغیر اور مقدمہ چلائے بغیر کسی بھی طور ’’معافی‘‘ کا حق دار قرار پاتا ہے تو عوام کی آنکھوں سے تاریخ کے صفحات تک اس ’’درگُزر‘‘ کے لیے بس ’’ناقابل معافی‘‘ کے الفاظ تحریر ہوں گے۔

کلرک بننے سے باوردی ’’کِلر‘‘ بننے تک

یہ آٹھ اگست 1995کی دوپہر تھی، نصیر اللہ بابر کی سربراہی میں ایم کیوایم کے خلاف شروع ہونے والا آپریشن اپنے عروج پر تھا، شام کے اخبارات میں شایع ہونے والے ایک مبینہ پولیس مقابلے کی خبر نے شہرقائد پر خوف اور وحشت کے نئے سائے مسلط کردیے۔ یہ خبر تھی ایم کیوایم کے کارکن فاروق دادا اور اس کے ساتھیوں غفار مادہ، حنیف تُرک اور جاوید مائیکل کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کی۔

اخبارات میں شایع ہونے والی تصاویر میں اس وقت ایئر پورٹ تھانے کا ایس ایچ او لاشوں کے ساتھ کچھ اس طرح کھڑا تھا جس طرح شکاری اپنے شکار کو ہلاک کرنے کے بعد فخریہ طور پر تصویر بنواتا ہے۔ ایس ایچ کا او کا موقف تھا کہ بھاری ہتھیاروں سے لیس یہ مجرم پی آئی اے کے جہاز پر حملہ کرنے کی نیت سے ایئرپورٹ کی حدود میں داخل ہورہے تھے اور نہ رکنے پر دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوئے، لیکن حقیقت اس کے بر عکس تھی، فاروق دادا کو ایک رات قبل ہی گارڈن ویسٹ کے علاقے میں اس کے سسرال سے گرفتار کیا گیا تھا، جب کہ اس کی لاش کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹر نے فاروق دادا پر بہیمانہ تشدد کی تصدیق کی تھی۔ یہ اس پولیس افسر کا شاید پہلا ماورائے عدالت قتل تھا، جس نے1980میں ایس پی کیماڑی کے پاس بہ طور کلرک بھرتی ہونے والے ایک شخص کو باوردی ڈان بننے کی جانب راغب کیا۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ محض ایک سال کے عرصے میں اس افسر کو کلرک سے ترقی دے کر براہ راست اے ایس آئی بنا دیا گیا۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا پہلا مبینہ پولیس مقابلہ کرنے والے اس افسر کو شاید خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کی یہ فاتحانہ تصویر اُسے آنے والے سالوں میں اپنے ’کیریئر‘ کے عروج پر پہنچا دے گی۔ اپنی سروس کے پہلے ’ قتل‘ کو اس افسر نے بے پایاں مسرت کا موجب قرار دیا۔ اس پہلے مبینہ پولیس مقابلے کے بعد تو گویا اس کے منہ کو خون لگ گیا اور اور چند ہی ماہ میں اس کا شمار سندھ پولیس کے ’ماورائے عدالت قتل‘ کے ماہرین میں ہونے لگا۔

اسی سال دس اکتوبر کو ناظم آباد کے ایک گھر میں پھر ایک پولیس مقابلہ ہوا اور اس افسر نے اپنی پوری فورس کو ایک خراش لگائے بنا ’جواںمردی ‘ سے اپنے وقت کے مشہور ’دہشت گرد ‘ فہیم کمانڈو کو تین ساتھیوں سمیت ہلاک کردیا۔ مقابلے میں ہلاک ہونے والے ’دہشت گردوں‘ کو چھے اگست کو سی آئی ڈی جمشید کوارٹر نے حراست میں لے کر تفتیش کے بعد جیل بھیج دیا تھا جہاں سے انہیں نو اکتوبر کو دوپہر تین بجے کے قریب ’پولیس مقابلے‘ کے لیے ایئر پورٹ پولیس اسٹیشن میں سندھ پولیس کے اس ’ہونہار‘ پولیس افسر کے حوالے کردیا گیا۔ پولیس مقابلے کی تما م تیاریاں مکمل کرنے کے بعد اس ’قابل‘ افسر کی سربراہی میں فہیم کمانڈو، ذیشان حیدر عابدی، یوسف رحمان اور مفیض فاروقی کو ناظم آباد میں واقع ایک گھر میں لے جایا گیا۔  اور چند گھنٹوں بعد ہی پولیس مقابلے میں یہ ’ہتھکڑی لگے‘ دہشت گرد پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگئے۔

انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ زہرہ یوسف نے اس پولیس مقابلے کو ماورائے عدالت قتل قرار دیتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات والا رہا۔ کچھ پُراسرار وجوہات کی بنا پر ان جعلی پولیس مقابلوں کی تحقیقات مکمل نہیں ہوسکیں، سیاسی سرپرستی نے ایک معمولی ایس ایچ او کی فرعونیت کو دوام بخشا اور پھر اس کے بعد سے ایسے ’ جادوئی‘ پولیس مقابلوں کا سلسلہ شروع ہوا جن میں لسانی، سیاسی، مذہبی جماعتوں کے سیکڑوں ’’خطرناک‘ دہشت گرد‘‘ ایک بھی پولیس اہل کار کو زخمی کیے بنا ہلاک ہوئے۔

’جعلی مقابلے ‘ کرنے کی اہلیت کی بدولت راؤانوار پہلے ڈی ایس پی اور پھر ایس ایس پی کے عہدے پر فائز ہوگیا۔ اس افسر کو ایس ایس پی بناکر کراچی کے سب سے زیادہ کماؤ پوت ضلع ملیر میں تعینات کردیا گیا۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق، ضلع ملیر میں تعیناتی کے بعد بکتر بند گاڑی میں بیٹھ کر پولیس موبائلز کے جلو میں سفر کرنے والا سندھ پولیس کا یہ ’بہادر بچہ‘ ریتی بجری کی غیرقانونی کھدائی، زمینوں پر قبضے، مخالفین کے قتل اور اغوا برائے تاوان جیسے ’’نیک کام‘‘ سینے پر قانون کا تمغہ سجائے کرتا رہا۔ لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، جس کو چاہا پیسے لے کر چھوڑ دیا، جس کو چاہا شدت پسند قرار دے کر مار دیا۔

طاقت کے نشے اور ارباب اختیار کی سرپرستی نے اسے جوان لاشے اٹھاتے باپ کی آہ وزاری سننے، بوڑھی ماں کی آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھنے سے قاصر کردیا۔ انسانیت کے اس ننگے ناچ میں اس جیسے کچھ اور ضمیر فروش بے حس اہل کار بھی رقصاں رہے۔ ظلم و جبر، وحشت و بربریت کا ننگا ناچ جاری رہا۔ جیسے جیسے ’پولیس مقابلوں‘ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھتی رہی ویسے ویسے انسانیت کے نام پر دھبا لگانے والے اس افسر، اس کے سر پرستوں، اس کے ساتھیوں کی جائیدادوں، بینک بیلنس اور پولیس مقابلوں کی تعداد بڑھتی رہی۔

اس بہادر بچے کے اپنے ہی محکمے کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ اس افسر نے ضلع ملیر میں تعینات ہونے کے بعد سات سال کے عرصے میں ’جواںمردی‘ سے 192پولیس مقابلوں میں 444 مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک کیا، ہلاک ہونے والے دہشت گردوں میں سے زیادہ تر نے اس بہادر بچے سے ’ہتھکڑیاں‘ پہن کر مقابلہ کیا۔

پولیس مقابلوں کی یہ تعداد تو وہ ہے جو اس افسر کی سربراہی میں ہوئے جب کہ مجموعی طور پر 745 پولیس مقابلوں میں یہ افسر ملوث رہا۔ یہ سب مقابلے اس افسر نے اپنی ذات کے لیے نہیں بل کہ قوم کی ’خدمت‘ کے جذبے سے سرشار ہو کر کیے۔ لوگ اس افسر کو ایک ظالم انسان کے طور پر جانتے ہیں لیکن یہ اتنا ظالم بھی نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں کیوں کہ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’صاحب بہادر‘ نے گذشتہ سات سالوں میں891 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ، لیکن ہلاک صرف 444ہی ہوئے، یعنی نصف سے زائد مشتبہ افراد کو انہوں نے یقیناً ’جذبۂ خیرسگالی‘ کے تحت چھوڑ دیا، یہ الگ بات ہے کہ مبینہ طور پر گرفتارشدگان کو مال کی ’’خیرات‘‘ سے یہ خیرسگالی خریدنا پڑی۔

بلا تخصیص وامتیاز شہریوں کو پولیس مقابلے میں ’پار‘ کرنے والا یہ افسر اتنا با اثر رہا کہ کبھی سندھ اسمبلی کے ا پوزیشن لیڈر کو گریبان سے پکڑ کر گھر سے لے گیا تو کبھی اپنے اعلیٰ افسران کو ہی دھمکیاں دیتا رہا، عدالتیں اس کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتی رہیں اور یہ انہی عدالتوں میں پولیس پروٹوکول کے ساتھ گھومتا رہا۔ راؤانوار کو 4 مرتبہ، 2 مرتبہ سندھ ہائی کورٹ کے حُکم پر اور 2 مرتبہ سپریم کورٹ کے حکم پر ہٹایا گیا۔ مگر چند دن بعد وہ دوبارہ تعیناتی حاصل کرکے اپنے عہدے پر موجود ہوتا تھا۔ ترقی کا خواہش مند راؤ انوار اس کام کے لیے جائز و ناجائز کا کبھی قائل نہیں رہا۔ مختلف تھانوں میں ڈیوٹی اور مختلف محکموں میں اپنے تبادلے کروانے والے راؤ انوار نے مقتدر حلقوں کی نظر میں آنے کے لیے اہم شخصیات سے رابطے استوار کیے۔ اپنی اِس خصوصیت کی بنا پر اس نے غیرمعمولی طور پر ترقی حاصل کی اور جلد ہی نارتھ ناظم آباد میں ایس ایچ او کی پوسٹ حاصل کرلی۔

کہا جاتا ہے کہ راؤ انوار سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کا بھی منظور نظر رہا اور اسی عرصے میں اس کے ارباب اختیار کے ساتھ رابطے قایم ہوئے۔ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے کہنے پر نصیر اللہ بابر نے راؤ انوار پر خصوصی نظرِکرم کی، جس کے بعد راؤ انوار نے کراچی میں مقابلوں کی بھرمار کردی۔ سنیئر پولیس افسران کے مطابق تشدد کی بھیانک ترین شکل چیرا لگانے کا موجد بھی راؤ انوار ہی تھا۔

پولیس مقابلوں میں ورلڈ ریکارڈ بنانے کا خواہش مند یہ افسر شاید یہ کام بھی کر گزرتا لیکن رواں برس13 جنوری کو ہونے والے پولیس مقابلے نے اس بہادر بچے کی بہادری کی ساری ہوا نکال دی۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پولیس مقابلے کا سامان سجایا گیا، ایک ماتحت نے گھر میں ’دہشت گردوں‘ کی موجودگی ثابت کرنے کے لیے کھانے پینے کا سامان اور دیگر ضروری چیزیں رکھیں تو ایک ماتحت نے ہتھکڑی بند دہشت گردوں کو مقابلے کے مقام پر لانے کا فریضہ سر انجام دیا، ایک ماتحت نے ان دہشت گردوں کو شدت پسند ثابت کرنے کے لیے لکھے لکھائے اسکرپٹ میں نام اور مقام کی تبدیلی کا ذمہ اٹھایا۔

لیکن حد سے زیادہ اعتماد کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ یہ بھول گئے کہ ان شکاروں میں سے ایک نہ صرف شو بز کا دل دادہ ہے بل کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر نہایت سرگرم بھی، جسے طالبان جیسے مذہبی انتہاپسندوں سے وابستہ باور کرانے کی کوشش گلے پڑ جائے گی، اور اسی ایک بھول نے سندھ پولیس کے اس ’بہادر بچے‘ کے گرد قانون کی گرفت مضبوط کرنا شروع کردی۔ منصوبے کے مطابق مقابلے کے بعد روایتی بیان جاری کیا گیا کہ ایس ایس پی راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس نے شاہ لطیف ٹاؤن کی حدود میں ایک پولیس مقابلہ کیا جس میں ہمیشہ کی طرح تمام اہل کار محفوظ رہے اور ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والے ’خطرناک‘ دہشت گرد ہلاک ہوگئے ہیں، ان ہی میں ایک وزیرستان سے تعلق رکھنے والا 27 سالہ نقیب اللہ محسود بھی تھا۔

اس خوبرو نوجوان کی گولیوں سے چھلنی لاش کی تصاویر نے سوشل میڈیا پر ہل چل مچا دی، نقیب اللہ کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری مہم کے حق میں مین اسٹریم میڈیا بھی اِس آواز میں اپنی آواز ملانے پر مجبور ہوگیا، جس کے بعد عوام سڑکوں پر نکل آئے اور سڑکوں سے ایوانوں تک نقیب اللہ کے قتل پر احتجاج ہونے لگا۔ قبائلی علاقوں اور کراچی میں پختون عوام کی جانب سے ہونے والے مظاہروں اور احتجاج کے بعد اربابِ اختیار کو ہوش آیا، انکوائری کمیٹیاں بنیں، جنہوں نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں ہی نقیب اللہ محسود کے حوالے سے کیے گئے راؤ انوار کے دعوؤں کی صداقت پر سوالات اٹھائے۔

عدالت کی جانب سے راؤ انوار کو اشتہاری ملزم قرار دیا گیا۔ لیکن پولیس تمام تر کوششوں کے باوجود اپنے اس ’ہونہار‘ پولیس افسر کو گرفتار کرنے سے قاصر رہی۔ اور بالآخر اپنے سرپرستوں کی یقین دہانی کے بعد اس ملزم نے خود کو عدالت میں پیش کردیا۔ سندھ پولیس کے اس اِن کاؤنٹر اسپیشلسٹ راؤ انوار کی ریٹائرمینٹ میں چند ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں، مگر نقیب اللہ کیس میں یہ بری طرح پھنس چکا ہے، جب کہ اسے ایک محفوظ راستہ دینے کے لیے چند دن قبل ہی تفتیشی ٹیم نے نقیب اللہ قتل کیس میں ملوث اس مرکزی ملز م کو وعدہ معاف گواہ بننے کی صورت میں سزا میں نرمی کی پیش کش کی ہے، جس کے بعد اس سے سودے بازی ہوجانے کی خبر شایع ہوئی ہے۔

راؤ انوار وعدہ معاف گواہ بنتا ہے یا نہیں ابھی اس بات کا فیصلہ نہیں ہوا، لیکن لاکھوں لوگ سوال کر رہے ہیں کہ ’’وعدہ معافی‘‘ کی پیش کش کا کیا جواز بنتا ہے۔ سیکڑوں بے گناہوں کے خون میں ہاتھ رنگنے والے اس پولیس افسر کی دیدہ دلیری نے بہت سے سوالات کو جنم دے دیا ہے۔ کن عناصر کی شہہ پر ایک ایس ایس پی رینک کا افسر آئی جی، ڈی آئی جی کے احکامات کو جوتے کی نوک پر رکھتا رہا؟ یہ قاتل پولیس افسر ریتی بجری، لینڈ مافیا ، اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین نوعیت کی وارداتوں میں ملوث ہونے کے باوجود اپنے عہدے پر کیسے براجمان رہا؟ اور بھی ایسے سوالات ہیں جو ایک عام شہری کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔

اور ان میں سب سے اہم یہ سوال زور و شور سے گھروں، بازاروں، دفتروں، تفریح گاہوں، سماجی، تعلیمی اور ثقافتی اداروں کے درو دیوار اور قانون سے وابستہ لوگوں کے ذہنوں پر ہتھوڑے برسا رہا ہے کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا ایسا ہی ہوگا؟ کیا سیاہی کے ہاتھ اتنے ہی مضبوط ہیں؟ کیا جبر و ظلم کی زنجیروں نے ساری انصاف پسند قوتوں کا گلا گھونٹ کر انہیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیا ہے؟؟؟؟؟  کیا دانش کے سارے خزانے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پڑے سڑتے رہیں گے؟؟؟؟

گذشتہ ہفتے ملک بھر میں ہمارے فلسفی شاعر ڈاکٹر محمد اقبال کا یوم ِ وفات منایا گیا، جنہوں نے زندگی کی سر بلندی کے لیے کائنات کے کہنہ رازوں سے، تدبیر و جستجو کی نئی نئی کلیدوں سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ دیکھیے، ہمارے آج کے اس موضوع سے ان کا یہ بھولا بھٹکا شعر کس قدر مناسبت رکھتا ہے:

ہر شیشہ ٹوٹ جاتا ہے پتھر کی چوٹ سے

پتھر ہی ٹوٹ جائے وہ شیشہ تلاش کر!

The post عوام جواب مانگتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2r8n7fw
via IFTTT

0 comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.