Saturday, 30 June 2018

دلّی والے

دلّی کے ہر گھر میں ڈیوڑھی کے ساتھ دیوان خانہ یا بیٹھک ہوتی تھی شام پڑے احباب یہاں جمع ہوتے اور دیر تک باتیں کیا کرتے تھے۔ باہر والوں کو جب دلی والوں پر تنقید کرنا مقصود ہوتی ہے تو ناک چڑھاکر کہتے ہیں میاں انھیں مرچیں کھانے اور باتیں بنانے کے علاوہ آتا ہی کیا ہے۔ چلیے اگر ہم صرف اتنا ہی مان لیں تو بھی یہ ہنر کیا کم ہیں۔ مرچ مسالوں سے وہ چٹ پٹی چیزیں ایجاد کی ہیں کہ ان کا ذکر کیجیے تو منہ میں پانی آتا ہے۔

باہر والے الوداع کی نماز پڑھنے دلی آتے ہیں تو سیکڑوں روپے چاٹ جاتے ہیں۔ ایک نہاری کو ہی لے لیجیے جس کے منہ لگتی ہے پھر نہیں چھوٹتی۔ بامن کی لڑکی کھائے تو کلمہ پڑھنے کو تیار ہوجائے، خدا غریق رحمت کرے چچا کبابی کو، جامع مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے شمالی دروازے کی جانب بیٹھتے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ان کے پاس وہ مسالے ہیں کہ کھڑے بجار پر لتھیڑ دیں تو گل کے گر پڑے۔ یہ تو رہی مرچیں کھانے کی بات۔ اب ذرا باتیں بنانے کا بھی ذکر ہو جائے۔ کون ہے جو ان کے سامنے زباں دانی کا دعویٰ کرے اور خجالت سے پانی نہ بھرے۔ جن بزرگوں نے کل تک شاہد احمد دہلوی، ملا واحدی، مرزا محمود بیگ، اشرف صبوحی اور خواجہ محمد شفیع کی باتیں سنی ہیں وہ آج تک ان باتوں کا مزا لیتے ہیں۔ خدا کرے ان بزرگوں کی روح نہ شرمائے، گالیاں دیتے تھے تو سننے والوں کو جھاڑی بوٹی کے بیروں کا مزا آتا تھا۔

ڈاکٹر فیلن جس کی انگریزی اردو ڈکشنری مشہور ہے۔ اس گھمنڈ میں تھے کہ انھیں اہل زبان سے کہیں زیادہ اردو آگئی ہے۔ سید احمد دہلوی فرہنگ آصفیہ والوں نے صاحب کو بتایاکہ دلی کے شرفا کا تو ذکر ہی کیا آپ چھوٹی امت جتنی بھی اردو نہیں جانتے۔ فیلن صاحب ان کی یہ بات سن کر سرخ ہوگئے۔ ایک مہترانی اپنا ٹھیکرا اٹھائے سامنے سے گزری۔ سید صاحب نے کہا، ’’ذرا اسی سے بات کرلیجیے، ہاتھ گنگن کو آر سی کیا ہے۔ صاحب نے کہا تو سید صاحب نے مہترانی کو آواز دی۔ ’’اے بوا ذرا یہاں آنا، صاحب تم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

مہترانی نے آکر کہا، ’’فرمائیے کیا بات کرنی ہے۔‘‘ صاحب نے کہا، ’’تم ہم سے کچھ پوچھو۔‘‘ وہ سٹپٹائی کہ یہ گورا آخر چاہتا کیا ہے۔ کہیں سٹھیا تو نہیں گیا۔ سید صاحب نے کہا ،’’تم ان سے کسی محاورے کے معنی پوچھو۔‘‘ مہترانی نے کہا ’’اچھا تو میں اس ٹوکرے کو لپک کر ڈلاؤ پر ڈال آؤں پھر پوچھوںگی۔‘‘ صاحب بغلیں جھانکتے رہ جائیںگے۔‘‘ ڈاکٹر فیلن کے کان کھڑے ہوئے کہ مہترانی ایک ہی فقرے میں دو باتیں ایسی کہہ گئی جو مجھے معلوم نہیں ہیں۔ مولوی صاحب سے پوچھا ڈلاؤ کسے کہتے ہیں اور بغلیں جھانکنا کیا ہوتا ہے۔ اتنے میں مہترانی واپس آگئی۔ بولی، ہاں صاحب بہادر بتاؤ، ’’ اگن کے بچے کھجوروں میں‘‘ کا کیا مطلب ہے۔ ’’صاحب واقعی بغلیں جھانکنے لگے۔ مہترانی نے کہا، ’’بس ہوگئی ترکی تمام، پھٹے سے منہ۔

صاحب کا سارا علم دھرا کا دھرا رہ گیا۔ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔

 سید ضمیر حسن دہلوی

The post دلّی والے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Nanb8A
via IFTTT

0 comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.