Friday, 29 June 2018

شہید صحافت ڈاکٹر شجاعت بخاری کس سازش کا شکار ہوئے؟

وادی کشمیر جو ایک زمانے میں سادھو سنتو، رِشی منیوں کا مسکن ہوا کرتا تھا، جہاں لوگ لڑائی سے دور لڑائی کی بات کرنے سے بھی کتراتے تھے۔ جہاں کے لوگ درویشن صفت ہوا کرتے تھے۔ جہاں پر ایک خون ناحق اگر کہیں ہوتا تو آسمان سرخی اختیار کرتا جس سے لوگ سمجھ جاتے کہ کہیں پر کسی معصوم انسان کا خون بہا ہے، کوئی حیوانیت کا شکار ہوچکا ہے۔ وادی گلپوش جہاں کے لوگ اگر آس پڑوس میں لڑائی جھگڑا دیکھتے تھے تو اپنے دروازے اور کھڑکیاں بند کر لیا کرتے تھے کیوں کہ وہ لڑائی جھگڑے سے ڈرتے تھے۔ اگر دو اشخاص کے درمیان کسی بات پر تُو تُو میں میں ہوتی تھی تو ایک دوسرے پر لاٹھیوں اور ہتھیاروں سے حملہ نہیں کرتے تھے، بلکہ اپنے کپڑوں کے بازوؤں کے آستینوں سے مارتے تھے۔

لیکن اب اس قدر لوگ سنگدل، خون کے پیاسے اور لالچی ہوگئے ہیں کہ کسی بھی معصوم شخص کو بلا وجہ کسی بھی جگہ مارنے اور مروانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ 90 کی دہائی سے وادی میں جو خونی کھیل شروع ہوا، اس نے اب تک لاکھوں لوگوں کو نگل لیا اور لاکھوں کو بے سہارا کیا۔ لاکھوں بچے یتیم ہوئے، ہزاروں کی تعداد میں عورتیں بیوہ اور والدین بے سہارا ہوگئے۔ اس خونی کھیل میں وادی کی بڑی بڑی ہستیاں نفرت کی بھینٹ چڑھیں۔

مولانا مولوی محمد فاروق، قاضی نثار، عبدالغنی لون، ڈاکٹر عبدالاحد گورو، ایڈوکیٹ پیر حسام الدین، محمد صدیق ڈار، ایڈوکیٹ جلیل اندرابی، شیخ عبدالعزیز سمیت درجنوں ایسی ہستیاں جو کشمیری قوم کا دکھ اور درد اپنے سینے میں لئے ہوئے تھیں، کو جرم بے گناہی میں شہید کیا گیا۔ اور یہ سلسلہ چلتا ہی چلا جا رہا ہے جس میں ایک اور نام کا اضافہ ہوا، شہیدِ صحافت ڈاکٹر شجاعت بخاری جس کو عین افطار کے وقت اپنے دو محافظوں سمیت گولیوں سے چھلنی کر کے منصب شہادت پر فائز کر دیا گیا۔

ڈاکٹر شجاعت بخاری شہید کا کیا قصور تھا؟ وہ کس سازش کے شکار ہوئے؟ ان سوالات کے جوابات کسی کے پاس نہیں۔ نہ سرکار ان باتوں کا جواب دے سکتی ہے اور نا ہی علیحدگی پسند جماعتیں۔ ان کی ہلاکت پر ہندوستان نے بھی مذمت کی اور پاکستان نے بھی اس بیہمانہ قتل پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ عسکری جماعتوں نے بھی اس کو قتلِ ناحق قراردیا اور حفاظتی ایجنسیوں نے بھی اس پر شور بپا کیا۔ مین اسٹریم جماعتوں اور لیڈران نے بھی واویلا کیا مزاحمتی لیڈران و جماعتوں نے بھی مذمتی بیانات شائع کروائے۔ غرض زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے مکتبہ ہائے فکر سے وابستہ انجمنو ں اور لیڈروں نے سید شجاعت بخاری کی ہلاکت کو غیر انسانی فعل قراردیا۔ تو پھر اس ہلاکت کے پیچھے کون سے عناصر ہیں؟

اس ہلاکت کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما تھے اور ان کی شہادت سے کس طبقہ کو فائدہ یا نقصان پہنچا، یہ بات غور طلب ہے۔ 90 کی دہائی سے ہی یہاں ایسے افرادکو چن چن کر نشانہ بنایا گیا جنہوں نے کشمیریوں کے حق میں بات کی۔ جو اقتدار کے بھوکے اور مفادات کی خاطر کشمیر کاز کے خلاف رہے ہیں۔ وہ خود تو سخت حفاظتی حصار میں موج کرتے رہے ہیں مگر کبھی وادی گلپوش میں ہورہے مظالم، مار دھاڑ اور قتل و غارت گری کے خلاف آواز نہیں اُٹھائی۔ بلکہ آواز اٹھانے والوں کو مختلف ذرائع سے تہہ تیغ کیا گیا اور صفحہ ہستی سے مٹایا گیا۔ ڈاکٹر شجاعت بخاری کو ایک منصوبہ بند سازش کے تحت قتل کیا گیا، ان کا قتل ایک حادثاتی موت نہیں تھی۔ اس سازش کے پیچھے کن عناصر کا ہاتھ تھا؟ ہنوز یہ ایک معما بنا ہوا ہے۔

وادی کشمیر میں آج تک جن ہستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا گیا، ان کے قتل کی سازش اور ان ہلاکتوں میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنے میں پولیس اور خفیہ ایجنسیاں ناکام کیوں ہوئیں، یہ بذات خود ایک پہیلی ہے؛ اور اس پہیلی کو سلجھانے والے خود ہی ایک پہیلی بن جاتے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر شجاعت بخاری کا قتل بھی فی الحال ایک پہیلی ہی ہے کیوں کہ ابھی تک پولیس اس حوالے سے کچھ بھی کہنے کی موڈ میں نہیں ہے۔ وادی میں کسی بھی جگہ اس طرح کا کوئی حادثہ جب پیش آتا ہے تو پولیس دن رات ایک کرکے ملوث عناصر کو بے نقاب کرتی ہے، لیکن ڈاکٹر شجاعت بخاری اور ان جیسی دیگر ہستیوں کے قتل میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں پولیس ہمیشہ سے ہی ناکام رہی ہے۔ آج تک کسی بھی بڑی شخصیت کے قتل کے پیچھے سازش کا پردہ فاش نہیں کیا جاسکا۔

ڈاکٹر شجاعت بخاری ایک ایسے صحافی تھے جنہوں نے ہمیشہ سے ہی کشمیر اور کشمیریوں کے حق میں بات کی۔ وہ جہاں بھی گئے انہوں نے کشمیر میں ہورہے ظلم و جبر اور مار دھاڑ کے خلاف آواز اُٹھائی۔ شجاعت بخاری مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کے متمنی تھے۔ وہ اس تنازعہ کو ہمیشہ کےلیے حل کرنے کی وکالت کرتے تھے۔ اگرچہ مرحوم کے برادر مین اسٹریم جماعت سے وابستہ ہیں اور ریاست جموں و کشمیر کی سابقہ مخلوط سرکار میں بحیثیت ریاستی وزیر تھے، تاہم شجاعت بخاری کے خیالات اپنے برادر کے خیالات سے بالکل جدا تھے۔ وہ بیباک اور بے خوف صحافت کے علمبردار تھے۔ انہوں نے اپنے صحافتی پیشے سے ہمیشہ انصاف کیا۔ وہ قلم کو بندوق سے بھی زیادہ تیز چلاتے تھے اور اس مظلوم قوم کی داد رسی کےلیے اپنے الفاظ استعمال کیا کرتے تھے۔ ریاست جموں و کشمیر کی سیاست کے حوالے سے وہ ہمیشہ غیر جانبدار رہے ہیں۔

وادی کشمیر میں جاری یہ خونی کھیل آخر کب ختم ہوگا؟ کب اس چمن میں پھر سے بہار آئے گی اور بارود کی بو کے بدلے پھولوں کی خشبو ایک بار پھر وادی کو معطر کرے گی۔ کب تک ہم اپنے پیاروں اور اپنے ہمدردوں کے جنازے کاندھوں پر اُٹھاتے رہیں گے۔ کب تک ماؤں کی گود سونی ہوتی رہے گی۔ کب تک خواتین بیوائیں اور بچے یتیم ہوتے جائیں گے۔ اس خونی کھیل کا آخرخاتمہ کب ہوگا؟ بین الاقوامی اور اسلامی ممالک ہماری آہ و زاری سے بے خبر کیوں ہے؟ اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی مددگار کب آئے گا جو ہمیں اس ظلم سے آزادی دلائے؟ آخر اللہ تعالیٰ کی فتح ونصرت کب آئے گی؟

کشمیری قوم کو اس وقت ضرورت ہے سید صلاح الدین ایوبی جیسے جرنیل کی، قوم کو ضرورت ہے طارق بن ضیاد جیسے سپہ سالار کی۔ قوم کو ضرورت ہے ایک ایسی شخصیت کی جو ڈاکٹر شجاعت بخاری کی طرح اپنی شجاعت سے قوم کی صحیح رہنمائی کرکے اس ظلم سے نجات دلائے۔

شہید صحافت ڈاکٹر شجاعت بخاری آج ہم میں نہیں ہیں، لیکن قوم کےلیے ان کی شجاعت ہمیشہ آفتاب کی طرح چمکتی رہے گی۔ قوم ہمیشہ مرحوم کو یاد کرتی رہی گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post شہید صحافت ڈاکٹر شجاعت بخاری کس سازش کا شکار ہوئے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2N8SGQv
via IFTTT

Related Posts:

0 comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.