Wednesday, 6 June 2018

دینی جماعتوں کی سیاست کا مستقبل

متحدہ مجلس عمل کے حوالے سے ایک خاموشی ہے۔ سیاسی منظرنامے میں ایسے لگ رہا ہے جیسے متحدہ مجلس عمل کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ پنجاب میں یہ رائے ہے کہ پنجاب سے دینی جماعتوں کی سیاست ختم ہو گئی ہے۔ اسی طرح سندھ میں بھی دینی جماعتوں کی سیاست کا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا۔ کراچی میں بھی جماعت اسلامی کی بحالی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ ایسے میں یہ لگ رہا ہے کہ متحدہ مجلس عمل کا سیاسی مستقبل صرف کے پی اور بلوچستان تک محدود رہ گیا ہے۔

یہ تاثر بھی عام کے متحدہ مجلس عمل صرف کے پی کے تناظر میں دوبارہ بحال کی گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور سراج الحق کو سمجھ آگئی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر کے پی میں حکومت نہیں بنا سکتے۔ اس لیے اگر حکومت بنانی ہے تو اکٹھے ہونا ناگزیر ہے حالانکہ دونوںجماعتوںکے درمیان بنیادی نوعیت کے اختلافات تاحال موجود ہیں۔ فاٹا کے مسئلہ پر بھی دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑی تھیں۔ لیکن پھر بھی دونوں اکٹھے الیکشن لڑنے پر متفق ہیں۔ دونوں کی نظریں کے پی کی حکومت پر ہیں۔ ایک عمومی رائے یہی ہے کہ اگر جماعت اسلامی اور جے یو آئی اپنے ووٹ بینک کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو جیت یقینی ہے جو ایک سرپرائز ہو گا۔ متحدہ مجلس عمل کے پی کی بڑی جماعت بن کر ابھرے گی۔ انھی کی سیٹیں سب سے زیادہ ہوںگی۔ بلوچستان میںجماعت اسلامی کمزور ہے لیکن جے یو آئی کی سیٹیں ہیں۔ جے یو آئی اپنی سیٹیں جیت لے گی تو بلوچستان میں متحدہ مجلس عمل کی موجودگی ہو گی۔

لیکن اس سب کے باوجود متحدہ مجلس عمل کی پنجاب اورسندھ میں کوئی گیم نظرنہیں آرہی۔ کہا جا سکتا ہے کہ2002میں جب متحدہ مجلس عمل کو تاریخی کامیابی ملی تھی تب بھی پنجاب اور سندھ میں کوئی گیم نہیں تھی ۔ لیکن پھر بھی جماعت اسلامی نے کچھ سیٹیں جیتی تھیں۔ ایک سیٹ جے یو آئی نے گجرانوالہ سے جیت لی تھی جس کی وجہ سے پنجاب میں موجودگی کا احساس تھا۔ اسی طرح سندھ میں بھی تھا لیکن اس بار تو خطرہ ہے کہ ان دوصوبوں میں متحدہ مجلس عمل کا بالکل صفایا ہی ہو جائے گا۔ خطرہ ہے کہ ان دوصوبوں میں ان کی ایک سیٹ بھی نہیں ہوگی۔ ادھر پنجاب میں نئی دینی جماعتوں کا وجود بھی سامنے آیا ہے۔ ان نئی دینی جماعتوں کی سیاست سے اختلاف ممکن ہے۔ لیکن پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ انھوں نے حالیہ ضمنی انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے جسے بہر حال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ان میں حافظ سعید شامل ہیں اور لبیک یارسول اللہ شامل ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان دو جماعتوں نے لاہور اور پنجاب میں دیگر ضمنی انتخابات میں مناسب ووٹ لے کر سب کو حیران کر دیا ہے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں مناسب ووٹ بینک رکھنے کے باوجود پارلیمنٹ میں پہنچنے کی اہلیت نہیں رکھتی ہیں۔ ووٹ بینک ہے لیکن اتنا نہیں ہے کہ سیٹیں جیتی جا سکیں۔ یہ درست ہے کہ حافظ سعید کی جماعت کو الیکشن کمیشن نے رجسٹریشن نہیں دی ہے لیکن پھر بھی انھوں نے ایک اور جماعت کے ذریعے انتخابی میدان میں اترنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اندر کی خبر یہی ہے کہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی کو شائد حافظ سعید کے شامل ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ساجد میر صاحب کو یہ قبول نہیں ہے۔ اسی طرح جے یو پی (نورانی ) کو لبیک یا رسول اللہ کے شمولیت پر اعتراض ہے۔ لیکن میں اس ساری صورتحال کو دوسری طرح دیکھتا ہوں۔

میں سمجھتا ہوں کہ متحدہ مجلس عمل کی دونوں بڑی جماعتیں جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) بھی اندر سے ان دونوں جماعتوں کی شمولیت کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کو خطرہ ہے کہ ان دو نئی جماعتوں کے آنے سے ان کا متحدہ مجلس عمل پرکنٹرول کمزور ہو جائے گا۔ اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی گیم بس ان دو جماعتوں کے ہاتھ میں ہے ۔متحدہ مجلس عمل کے جلسوں میں ان کے کارکن اپنی جماعتوں کے جھنڈوں کے ساتھ موجود ہو نگے۔ پنجاب میں ان کا ووٹ بینک اس وقت متحدہ مجلس عمل کی باقی جماعتوں سے زیادہ ہے۔ یہ پنجاب میں تو آگے آجائیں گی۔ یہ دونوں جماعتیں جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) کے مد مقابل آنے کی اہلیت رکھتی ہیں ۔

اسی لیے انہیں متحدہ مجلس عمل سے دور رکھا جا رہا ہے۔ حافظ سعید تو متحدہ مجلس عمل میں شامل ہونے کو تیار تھے۔ انھوں نے اس کے لیے کوشش بھی کی ہے۔ تا ہم متحدہ مجلس عمل کی جانب سے وہ گرمجوشی نہیں دکھائی گئی ۔ نہ ہاں نانہ کی گئی۔ بس با ت چیت میں ہی وقت گزار دیا گیا۔ جب کہ لبیک یارسول اللہ  کے ساتھ تو بات چیت کے دروازے بھی نہیں کھولے گئے۔ ویسے اب تو وقت گزر گیا ہے۔دینی جماعتوں کو اس بات احساس کرنا چاہیے کہ آہستہ آہستہ پاکستان میں دینی جماعتوں کا ووٹ بینک بھی کم ہو رہا ہے۔ ان کی سیاسی جگہ بھی ختم ہو جاتی رہی ہے۔ ایسے میں اگر دینی جماعتوں نے اپنے اندر کے اختلافات ختم نہیں کریں گے۔ تو ان کے داستان بھی ختم ہو جائے گی۔ اس لیے اب بڑے فیصلے کرنے ہوںگے۔ لیکن شائد اس کے لیے و ہ تیار نہیں ہیں۔

The post دینی جماعتوں کی سیاست کا مستقبل appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2M1tPO0
via IFTTT

0 comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.