Wednesday, 6 June 2018

ترجمان پاک فوج کا اظہارخیال

ترجمان پاک فوج میجرجنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پاکستان کی امن کی خواہش کو بھارت ہماری کمزوری نہ سمجھے، مسلح افواج مادر وطن کے چپے چپے کے دفاع کے لیے پرعز م ہے، 2018 تبدیلی کا سال ہے، سیاست اور الیکشن میں فوج کو نہیں گھسیٹنا چاہیے، سوشل میڈیا کو پاکستان اور پاکستان کے اداروں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے اور پچھلے چار ماہ میں پاکستان اور فوج کے خلاف اکاؤنٹس میں تیز ی سے اضافہ ہوا ہے، فوج کے خلاف برداشت کر جاتے ہیں مگر پاکستان کے خلاف بات برداشت نہیں کی جاسکتی، پانی کا مسئلہ بہت سنگین ہے اور آیندہ اگر کبھی جنگیں ہوئیں تو اسی مسئلہ پر ہوںگی۔ وہ گزشتہ روز یہاں پریس کانفرنس کررہے تھے۔

بادی النظر میں ترجمان پاک فوج کی پریس کانفرنس ایک واشگاف پالیسی بیان ہے جس میں ملک میں جاری سیاسی اور انتخابی سرگرمیوں اور پیداشدہ داخلی صورتحال کا بے لاگ مجموعی جائزہ پیش کیا گیا تاکہ قوم ملک کو درپیش سیاسی ، سماجی ، تزویراتی ، اقتصادی،عسکری ، جیو پولیٹیکل اورا سٹریٹجیکل  پیش رفت کے بارے میں ملکی دفاع پر مامور ادارہ کی استقامت، مستعدی اور جارحیت کے خلاف بروقت کارروائی کے جذبہ اور شوق شہادت سے آگاہی حاصل ہو، یہ حقیقت ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کی تاریخ کا دھارا اب پاکستان کے صبر کا مزید امتحان نہیں لے سکتا، پاکستان امن کا خواہاں ضرور ہے اور اسے پاک بھارت تنازعات کے منصفانہ اور پائیدار حل کے لیے مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے ہیں، وہ بات چیت کی میز پر آنے کو تیار ہے مگر اس کے لیے بھارت کو اپنے جنگجویانہ طرز عمل، علاقے میں جارحیت اور بالادستی کے گھناؤنے کھیل سے دامن کش ہونا پڑیگا، جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ بھارت نے 2018 میں ایک ہزار 77 مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں کی، 48 پاکستانیوں کو شہید اور 265 کو زخمی کیا۔

انھوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے پہلی گولی آنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا تو جواب نہیں دیں گے لیکن دوسری گولی پر بھرپور جواب دیں گے۔ یہ بھارتی حکومت کے لیے ایک چشم کشا دلیل ہے کہ وہ خطے کو آگ اور جنگ کے شعلوں کی نذرکرنے اور پاکستان کے خلاف سازشوں ،مداخلتوں، ِ تخریب کاری اور دہشتگردی کے ٹرائیکا سے باہر نکلے اور مسائل کے حل کے لیے کشادہ نظر ہوکر کشمیر سمیت دیگر کور ایشوز پر بات چیت کے لیے آگے بڑھے۔ یہ حقیقت ہے کہ فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام تاریخی کامیابی ہے، فاٹا کو اب ترقی اور بہتری کی طرف لے کر جانا قومی ضرورت ہے، ترجمان نے پاکستان اور فوج سمیت سیکیورٹی اہلکاروں کے  خلاف سوشل میڈیا پر زہر اگلنے کی اندوہناک صورتحال کا انکشاف کیا اور تاکید کی کہ قوم کے دیدہ ور نیٹ ، سیل فون، سائبر ایکٹیوٹیز اور سوشل میڈیا کے بے سمت اور ہیجان انگیز مصروفیتوں کو تخلیقی رخ پر لے جائیں اور قومی مفادات کے تحفظ پر توجہ دیں، سوشل میڈیا نے مگرمچھ کی طرح جبڑے کھول رکھے ہیں، اس سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔

دشمن اس آزاد اور بے لگام میڈیا کے ذریعے پاکستان کی نظریاتی اور قومی اساس پر وار کرنے کی جستجو میں لگا ہوا ہے اس کے آگے سیسہ پلائی دیوار بننے کی ضرورت ہے، ترجمان کی پریس کانفرنس حقیقت پسندی کی مظہر جب کہ سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے آگہی، قومی سلامتی ، ملی یکجہتی اور بھائی چارہ کے آفاقی اقدار سے فکری وابستگی کی تجدید سے متعلق ہے، انھوں نے نئی نسل کے لیے کہا کہ اگر اس سیلابی ریلے کو عقل مندی سے ٹریٹ اور کنٹرول نہیں کیا گیا تو خطرہ بھی بن سکتا ہے تاہم ارباب اختیار اور سیکیورٹی حکام کو سوشل میڈیا کے جمہوریت دشمن اور فوج مخالف رجحان کے بنیادی محرکات ،اسباب اور مہیجات پر اہل دانش حلقوں کی رہنمائی بھی حاصل کرنی چاہیے ۔ سوشل میڈیا سماجی رابطہ کا علمی وسیلہ بننا چاہیے ،کوشش کی جائے کہ اسے تخلیق سوز سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے والوں کی موثر طور پر حوصلہ شکنی ہو۔ اس میڈیا سے قومی ترقی کا کام لیا جائے۔ لازم ہے کہ افغان مسئلہ پاکستان کے لیے کلیدی سطح پر حل ہونا چاہیے۔

اس بات میں دو رائے نہیں کہ پاکستان سے زیادہ کسی کی خواہش نہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہو، ہم سے زیادہ کسی کی خواہش نہیں کہ  امریکا کامیاب ہوکر افغانستان سے نکلے اور ایک مستحکم افغانستان چھوڑ کر جائے، افغان مہاجرین کی باعزت واپسی ضروری ہے، ان کے جانے کے بعد پاکستان میں جو بھی دہشت گرد ہیں ان سے مقابلے میں آسانی ہوگی، لیکن اصل چیلنج افغان حکام کی قلب ماہیت ہے، صدر اشرف غنی اور ان کے رفقا کو پاکستان مخاصمت سے ہٹانا سفارت کاری کی کامیاب ہنرمندی  سے کام لینے کی ضرورت ہے، انتہائی قوی سفارتی پیش قدمی سے پاک افغان تعلقات کو برادرانہ اور خوشدلانہ سطح پر آنا چاہیے۔

الزام تراشی ترک کرکے افغان حکومت خطے میں امن کے لیے پاکستان کی پیش رفت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، افغانوں کو ادراک کرنا ہوگا کہ امریکا، بھارت خطے میں امن واستحکام لانے میں سنجیدہ نہیں، امن کا راستہ پاکستان سے ہوکر گزرتا ہے۔ ترجمان نے ایران کے ساتھ سرحد پر حالات کی بہتری کا عندیہ دیا ہے جو خوش آیندہ ہے، ایران سے کشیدگی اور بے اعتمادی کی کوئی گنجائش نہیں رہنی چاہیے،دو برادر قریبی ہمسایہ ملکوں میں دوستی اور دوطرفہ تعلقات کی شیرینی دو چند ہوجانی ناگزیر ہے ، بلوچستان میں مزید سیکیورٹی ہائی الرٹ کی ضرورت ہے، سلمان بادینی کی ہلاکت پر ہزارہ کمیونٹی کا بہت اچھا رد عمل سامنے آنا سیکیورٹی اہلکاروں کے حوصلے بڑھانے کے لیے صائب حکمت عملی کا نتیجہ ہے، اسی طرح فاٹا میں منظور محسود کے منظور پشتین بننے کی کیمسٹری کا حال تشویش ناک ہے۔

سوشل میڈیا پر مہم چلنے، افغانستان میں پانچ ہزار سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے برق رفتاری سے بنانے ، بیرون ملک سے خصوصی ٹوپی کی اچانک مقبولیت ، ان تمام سرگرمیوں کے پس پردہ کرداروں تک رسائی ایک اہم ٹاسک ہے، اس ٹمپو کو جاری رہنا چاہیے، ان عناصر کی بھی سرکوبی بھی ناگزیر ہے جو ترجمان پاک فوج کے مطابق پاکستان کے دشمن اور پاکستان کے استحکام کے مخالف کیوں پی ٹی ایم کے حمایتی بنے ہوئے ہیں۔ یہ اطلاع مناسب اور بروقت ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے اپنی کتاب لکھنے سے پہلے کوئی این او سی نہیں لیا تھا ، اسد درانی کے خلاف پہلے ہی اصغر خان کیس بھی چل رہا ہے، انھیں طلب کر کے وضاحت مانگی گئی، مطمئن نہ ہونے پر انکوائری کورٹ تشکیل دی گئی، جونتیجہ جلد آئے گا اسے شیئر کیا جائے گا۔

ترجمان کا یہ اعلان ایک خوشخبری ہے کہ 2018 تبدیلی کا سال ہے اور لازم ہے کہ یہ تبدیلی سیاسی جماعتوں اور ان کے ووٹرز کے ذریعے آئے، میڈیا کے مطابق 2018 کے الیکشن میں قوم ایک حیران کن ٹرن آؤٹ کا منظر دیکھے گی جو گزشتہ دو انتخابات کے انتخابی نتائج سے بھی سبقت لے جا سکتا ہے، بشرطیکہ کوئی ’’حادثہ‘‘  نہ ہوجائے ۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ پاک فوج کو خوشی ہے دوسری جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی ۔ بلاشبہ اس خوشی میں پوری قوم شامل ہے۔ انتخابات کی شفافیت اور بروقت انعقاد سے نہ صرف بحرانوں کی شدت دم توڑ سکتی ہے بلکہ جمہوری عمل کو مہمیز ملے گی، ملکی سالمیت او استحکام کی منزل قریب آجائے گی۔

The post ترجمان پاک فوج کا اظہارخیال appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xIWi89
via IFTTT

0 comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.